ان بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ’میں غیراہم چیز کی طرح ادِھر اُدھر پھینکی جا رہی تھی۔ مجھے اس کا آدھا بھی یاد نہیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے میں وہاں تھی ہی نہیں۔ میں اٹھتی تھی، اپنے آپ کو صاف کرتی اور پانچ منٹ بعد بھلا دیتی کہ میرے ساتھ کچھ ہوا ہے۔ میں اسے بھلا دیتی تھی۔ ‘
اپنی بلوغیت کے دور میں وہ بارہ سال کی عمر میں
گینگ کی دنیا میں داخل ہوئیں اور بڑی عمر کے گینگ کے لوگوں کے ساتھ سیکس طرز زندگی
بن گیا تھا۔ ایک جنسی چیز کے علاوہ وہ منشیات کی ایک بااعتماد ترسیل کا ذریع بھی
بن گئیں۔ سینئر گینگ اراکین کو معلوم تھا کہ انہیں پولیس چھوٹی ہونے کی وجہ سے
نہیں روکے گی۔
سٹیسی بتاتی ہیں کہ ”میں نے سکول سے غائب ہونا
شروع کر دیا تاکہ منشیات حاصل کرسکوں۔ جب میں پندرہ کی تھی تو مجھے ٹیکسٹ پیغام
موصول ہوتا، میں اٹھتی اپنا بیگ اٹھاتی، باڑ پر سے کود کر وہ کرتی جو مجھے کرنا
تھا۔ بعض اوقات میں واپس سکول بھی چلی جاتی تھی۔‘
’ایسا کرنا بہت آسان ہوگیا تھا۔ اور پیسہ ہر جگہ
ہے۔ جب میں 15 کی تھی تو میں نے 400 پاونڈز بچا لیے تھے۔ مجھے احساس ہوا کہ میں
کتنا کچھ بچا سکتی ہوں۔ میں نے اسے چھوڑنے کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ میں
اس سے نکل کر کرتی بھی تو کیا کرتی؟ یہ تو کوئی راستہ نہیں ہی تھا۔ گینگ آپ کا
خاندان بن جاتا ہے، یہی ہے جو آپ کو ان کے ساتھ جڑے رکھتا ہے۔‘
سٹیسی کا تجربہ کوئی انوکھا نہیں تھا۔ 2017 میں
تقریبا اٹھارہ سال سے کم عمر کی 500 لڑکیوں کے بارے میں وزارت داخلہ کو آگاہ کیا
گیا جن کے بارے میں شبہ تھا کہ ان کا جنسی استحصال ہوا ہے۔ اس میں گذشتہ تین برسوں
میں 250 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ 2014 میں 47 سے بڑھ کر 110 بچیوں کو محنت کے
استحصال کی وجہ سے رپورٹ کیا گیا۔
نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) جو یہ
اعدادوشمار جمع کرتی ہے، اس اضافے کی وجہ گینگ کا استحصال ہے۔ ایجنسی نے حالیہ
دنوں میں اعتراف کیا کہ برطانیہ بھر میں یہ استحصال اندازوں سے تین گنا زیادہ ہے۔
ہزاروں ایسے بچوں کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔

0 Comments