مجنوں کے رشتہ داروں نے جب دیکھا کہ وہ لیلیٰ کے عشق میں دیوانہ ہو گیا ہے تو انہوں نے اس سے کہا کہ لیلیٰ تو ایک عام سی لڑکی ہے اس میں خوبصورتی اور حسن و جمال کی تو کوئی بات ہی نہیں ہے ہم ایک سے ایک خوبصورت لڑکی تمہارے لیے لا سکتے ہیں۔ہماری مانو تو اس لیلیٰ کا خیال چھوڑو،اس طرح تم بھی اس عذاب سے نکل آؤ گے اور ہمیں بھی لوگوں کے طعنے نہیں سننے پڑیں گے۔
جامِ عشق پینے والے مجنوں نے سب کی بات غور سے سنی پھر یوں جواب دیا۔ " صورت ایک پیالہ ہے اور حُسن شراب ہے۔تمہاری نظریں پیالے پر پڑتی ہیں اور اللّہ نے شرابِ حُسن کو تمہاری نظروں سے چھپا دیا ہے۔تم بھی اس شرابِ حُسن کی ایک جھلک دیکھ لیتے تو لیلیٰ کے عشق میں گرفتار ہو جاتے۔ "
مجنوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔اللّہ بڑا کارساز ہے ایک ہی پیالے سے کسی کو شہد،کسی کو دودھ،کسی کو زہر کا تریاق پلاتا ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ان کی صورت ایک جام کی سی تھی۔والد محترم حضرت یعقوب علیہ السلام کو ان میں جلوہ الٰہی نظر آتا تھا اور یوسف علیہ السلام کے بھائی ان کے حُسن سے زہر پیتے تھے۔
زلیخا نے اس پیالے سے شکر کا شربت پیا تھا۔جامِ عشق کا تعلق غیب سے ہے اور پیالہ اِس جہاں کا ہے یہ کسی کے لیے جامِ اَمرت بن جاتا ہے تو کسی کے لیے زہر۔یہ تو دراصل دلوں کے سودے ہیں جو کچھ کسی کے مقدّر میں ہوتا ہے اس تک پہنچ جاتا ہے۔
سبق = عشق ایک جام ہے جس سے پینے والے کو اس کا ظرف دیکھ کر پلایا جاتا ہے۔
حکایات رومی رحمتہ اللّہ علیہ،صفحہ 23
فقیر شمس الحق شر

0 Comments